قارئین! اگر لڑکی والوں کو خوبصورت‘ کماتا کھاتا اور پڑھا لکھا داماد چاہیے تو کیا لڑکے والے اپنی بہو کے حوالے سے ایسی کوئی خواہش نہیں رکھ سکتے؟ کیا وجہ ہے کہ ڈیمانڈز صرف لڑکے والوں کی ہی مشتہر ہوتی ہیں۔ لڑکے والے جہیز مانگیں تو ان پر لعنت‘ اور لڑکی والے شادی سے پہلے پلاٹ لکھوانے کی بات کریں تو یہ ان کا حق
تصویر کا دوسرا رخ لے کر حاضر ہوا ہوں
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں گزشتہ پانچ سال سے ماہنامہ عبقری پڑھتا بھی ہوں اور حسب توفیق لے کر دکھی انسانیت تک پہنچاتا بھی ہوں اور بعد میں ان سے حال احوال بھی لیتا ہوں کہ اس میں آئے وظائف اور ٹوٹکوں سے آپ کے کیا کیا مسائل ہوئے‘ جب وہ مجھے بتاتے ہیں کہ فلاں نسخے یا فلاں وظیفے سے ہمارا فلاں مسئلہ ہوا تو اس وقت جتنی شادمانی اور روح مسرور ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ صرف رسالہ تقسیم کرنے سے میرے بے شمار مسائل حل ہوتے ہیں آپ صحیح فرماتے ہیں آپ دوسرے کے مسائل حل کرنے میں ان کی مدد کریں اللہ کریم آپ کے مسائل حل فرمادیتا ہے۔ بات کدھر نکل گئی! اب آتا ہوں اپنے اصل موضوع کی طرف‘ عبقری رسالہ میں اکثر خواتین کی تحریریں نظر سے گزرتی ہیں کہ لڑکے والوں کی ڈیمانڈز بہت ہیں‘ دیکھ کر ریجیکٹ کردیتے ہیں‘ بچیاں کنواری گھر بیٹھی ہیں سر میں چاندی اتر آئی مگر کوئی رشتہ نہیں ملتا۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو‘ مگر میری وہ بہنیں یا بیٹیاں تصویر کا صرف ایک ہی رخ معاشرے کو دکھا رہی ہیں جبکہ میں آج قارئین عبقری کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ لے کر حاضر ہوا ہوں۔
میری بچی کیلئے کوئی اچھا سا رشتہ ڈھونڈو
پہلے یہ واقعہ پڑھیے:۔میرے ایک بچپن کے دوست ہیں‘ ان کے ساتھ میرا خوب اٹھنا بیٹھنا اور چہکنا ہے۔ ان کی تین بچیاں جوان ہیں مگر بات وہی کہ کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہیں ملتا۔اپنے اس دوست کے متعلق مزید یہ بتادوں کے ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ میرا یہ دوست روایتی طریقے سے ان کی شادیاں کرنا چاہتا ہے یعنی پہلے بڑی بیٹی‘ پھر دوسری کی‘ پھرتیسری کی اور سب سے آخر میں بیٹے کی۔ اسی ترتیب کو نبھاتے نبھاتے ان کی بڑی بیٹی کی عمر تیس سال ہو چکی ہے‘ چہرے پر ہلکے سے چیچک کے داغ ہیں اور تھوڑے سے دانت باہر کو نکلے ہوئے ہیں لیکن انتہائی سعادت مند اور فرمانبردار ہے۔ انہوں نے میرے ذمے لگایا کہ میری بڑی بچی کیلئے کوئی اچھا سا لڑکا ڈھونڈوں ۔
لڑکے کی تنخواہ60ہزار ‘ قد ساڑھے پانچ فٹ‘گھر علیحدہ
میں دس گیارہ لڑکوں کی تصویریں اور بائیو ڈیٹا انہیں فراہم کر چکا ہوں لیکن انہیں کوئی پسند نہیں آتاہر بار لڑکے میں کوئی نا کوئی نقص نکال کر ریجیکٹ کردیتے ہیں‘ بعض لڑکے اور ان کے گھر والے ملوائے بھی مگر ان کی ڈیمانڈز کچھ اس طرح کی ہیں‘ لڑکے کی تنخواہ کم از کم 60 ہزار‘ لڑکے کا قدساڑھے پانچ فٹ سے زیادہ‘ گھر اپنا‘ جوائنٹ فیملی ہے تو پورشن علیحدہ‘ لڑکی کے نام کم ازکم 5 مرلے کا پلاٹ لازمی کروائے۔ آج پھرمیں ان کے گھر گیا‘ چند لڑکوں کی تصاویر ان کی طرف بڑھائیں۔ پہلی تصویر دیکھ کر فرمانے لگے: ’’رنگ ذرا کالا ہے‘ تعلیم بی اے ہے‘ پرائیویٹ نوکری ہے اور گھر بھی اپنا نہیں‘ آپ پلیز ان سے معذرت کر لیجئے‘‘۔ میں نے سر کھجاتے ہوئے تصویر وصول کی ’’ٹھیک ہے لیکن آپ کی کیا ڈیمانڈ ہے؟‘‘۔ میرے دوست نہایت ملائمت سے بولے ’’دیکھو! لڑکا کم ازکم شکل و صورت کا اچھا ہو‘ اچھا کماتا ہو تاکہ میری بیٹی سُکھی تو رہ سکے۔‘‘ میں نے سرہلایا اور پہلو بدل کر بولا ’’جو لڑکا اچھا کماتا ہوگا‘ شکل و صورت کا بھی اچھا ہوگا‘ آخر اس کی بھی تو کوئی ڈیمانڈ ہوگی‘‘۔ میرا دوست جلدی سے بولا ’’ہاں تو بتاؤ نا ہے کوئی ایسا لڑکا نظر میں؟‘‘۔ میں نے گہری سانس لی ’’ہاں! ایک ہے تو سہی۔ کاروں کے سپیئرپارٹس کا ڈیلر ہے‘ ایم اے انگلش ہے اور اونچا لمبا، گورا چٹا ہے‘‘۔ میرا دوست اچھل پڑا ’’تو وہ دکھاؤ نا‘ اِن کو گولی مار‘‘ اور تمام تصاویر صوفے پر پھینک دیں۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں لڑکے کے گھر والوں سے پوچھ کر بتائوں گا۔تاہم اب انہوں نے سپیئر پارٹس والے لڑکے کے حوالے سے پسندیدگی کا اظہار کیا۔ یہ لڑکا میرے دوست کا بیٹا ہے۔ میں نے سپیئر پارٹس والےدوست سے بات کرنے کے بجائے پہلے اپنے اس دوست کو لڑکے کی تصویر وغیرہ دکھائی۔ ایک دفعہ بہانے سے اس کی دکان پر بھی لے گیا۔ میرا دوست بہت خوش تھا۔ اسے لڑکا ہر لحاظ سے پسند تھا۔ میرے دوست کی تسلی ہو گئی تو میں نے اشاروں کنایوں میں اپنے دوست سپیئر پارٹس ڈیلر (جن سے میری اچھی خاصی سلام دعا اور بے تکلفی تھی) سے بات کی۔ وہ گہری سوچ میں گم ہو گیا۔ میں نے تسلی دی کہ رشتہ ہونا نہ ہونا تو بعد کی بات ہے‘ ایک دفعہ ان کے گھر جانے میں کیا حرج ہے۔ دوست نے اثبات میں سرہلایا اور قدرے دھیمی آواز میں بولا ’’یار تمہیں تو پتا ہے آج کل کے بچوں پر زور زبردستی تو ہو نہیں سکتی‘ اگر میرےبیٹے کو پسند نہ آئی تو پھر نہ ہی سمجھنا۔ میں نے فوری طور پر تجویز کی حمایت کردی۔
ایک ہفتے بعد میرا دوست‘ اس کی وائف لڑکی والوں کے گھر موجود تھے۔ لڑکی کی فیملی بہت خوش تھی۔ کچھ دیر بعد روایتی انداز میں چائے کے بہانے ان کی بڑی صاحبزادی اندر داخل ہوئی۔ سلام لیا‘ چائے بنائی‘ کچھ دیر بیٹھی اور چلی گئی۔ تھوڑی دیر گپ شپ کے بعد ہم بھی اٹھ کھڑے ہوئے‘ لڑکی کی تصویر لی اور وہاں سے آگئے۔ اگلے دن میرے سپیئرپارٹس والے دوست نے مجھے اپنے بیٹے کا جواب بتا دیا۔ لڑکی کا والد تشریف لایا تو میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں اسے کیسے بتائوں کہ لڑکے نے ان کی صاحبزادی کو ریجکٹ کر دیا ہے۔
لڑکی والوں کی ڈیمانڈز نے قرض میں ڈبو دیا
میں نے ڈائریکٹ بات کرنے کی بجائے عمومی انداز میں کہا ’’یار! آج کل لڑکوں کی ڈیمانڈز بہت ہو گئی ہیں۔ اس لڑکے کو بھی شوق ہے کہ اس کی بیوی کسی اونچے گھرانے سے ہو‘ کم عمر ہو اور بہت زیادہ حسین ہو‘‘۔ میرے دوست کے نتھنے پھول گئے ’’یعنی جواب ہے؟‘‘ میں کھسیانا ہوگیا ’’نہیں! کچھ بھی جواب نہیں‘ وہ تو بس اپنی پسند بتا رہا تھا‘‘۔ میرا دوست کچھ دیر مجھے غور سے دیکھتا رہا۔ پھر بمشکل اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے بولا ’’لعنت ہو ایسے لڑکوں پر جو سیرت کی بجائے صورت اور مال کو ترجیح دیتے ہیں‘ ان بے غیرتوں کو شرم نہیں آتی کہ یوں پلک جھپکتے میں کسی بھی بچی کو ریجکٹ کرکے چلے جاتے ہیں‘‘ میرا دوست نجانے کیا کیا بولتا رہا اور میں سر جھکائے اس کی باتیں سنتا رہا۔ قارئین! اگر لڑکی والوں کو خوبصورت‘ کماتا کھاتا اور پڑھا لکھا داماد چاہیے تو کیا لڑکے والے اپنی بہو کے حوالے سے ایسی کوئی خواہش نہیں رکھ سکتے؟ کیا وجہ ہے کہ ڈیمانڈز صرف لڑکے والوں کی ہی مشتہر ہوتی ہیں۔ لڑکے والے جہیز مانگیں تو ان پر لعنت‘ اور لڑکی والے شادی سے پہلے پلاٹ لکھوانے کی بات کریں تو یہ ان کا حق۔ لڑکی والے دس لڑکوں کو بھی ریجکٹ کر دیں تو کوئی بات نہیں
لیکن اگر کوئی لڑکا ان کی لڑکی کو ریجکٹ کر جائے تو دنیا بھر کا لالچی اور گھٹیا کہلاتا ہے۔ لڑکے کا کریکٹر چیک کرنا ہو تو لڑکی والے اس کے دوستوں رشتہ داروں تک کے پاس جا پہنچتے ہیں، لیکن تصور کیجئے کہ یہ حرکت اگر لڑکے والے کر لیں تو ؟؟؟ابھی گزشتہ ہفتے میں اپنے ایک رشتہ دار کی شادی پر گیا‘ تو معلوم ہوا لڑکے نے بینک سے قرض لے کر پلاٹ لے کر لڑکی کے نام کروایا تو پھر انہوں نے لڑکی کا رشتہ دیا۔ آج لڑکا لاکھوں کا مقروض بنا سٹیج پر بیٹھا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اب یہ معمولی تنخواہ پر کام کرنے والا بندہ آگے کی زندگی کیسے گزارے گا؟ قارئین یہ بھی سچ ہے کہ آج کل لڑکے نہیں لڑکی والے جہیز مانگتے ہیں۔ اپنا گھر‘ گاڑی‘ بینک بیلنس… تاکہ بچی خوش رہ سکے۔ گویا لڑکے کو زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ بھی سُکھی رہنے کا خواب دیکھ سکے۔ لڑکیوں کی شادیاں بروقت نہ ہونے کا سبب یہ نہیں کہ لڑکے نہیں ہیں‘ لڑکے تو ہیں لیکن مطلب کے نہیں۔ سب کو ایک پلا پلایا‘ خوشحال اور بانکا سجیلا چاہیے۔ عموماً لڑکی والوں نے ہی یہ طے کیا ہوا ہے کہ غریب‘ کالا اور کم تعلیم یافتہ لڑکا ان کی لڑکی کے لیے موزوں نہیں لیکن اُن کی لڑکی میں کوئی نقص نکال کر تو دیکھے۔ میٹرک پاس لڑکی کو بھی ایم اے پاس لڑکا چاہیے۔ لڑکی کی طرح لڑکے کے پیچھے بھی اس کی فیملی ہوتی ہے جن کا جرم یہ ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنے بیٹے کے لیے کھاتی پیتی اور چاند سی بہو چاہتی ہے۔ میرے ایک دوست کا بیٹا 33 سال کا ہوگیا ہے‘ لڑکی والے اس کے گھر آتے ہیں‘ گھر چھوٹا دیکھ کر اور نوکری معمولی سن کر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور اب تو معلوم ہوا ہے کہ لڑکی والوں کی بڑی بڑی ڈیمانڈز کی وجہ سے اس نے شادی کا خیال ہی اپنے ذہن سے نکال دیا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں